مذاہب میں حسن شریعت نہیں ہے
مذاہب میں حسن شریعت نہیں ہے
کسی کے بھی دل میں مروت نہیں ہے
ترے ناز خاموش رہ کر اٹھا لیں
وہ پہلی سی اپنی بھی حالت نہیں ہے
لگایا گلے موت کو در نہ چھوڑا
خطا یہ نہیں ہے یہ غفلت نہیں ہے
بھلا کیسے توڑوں میں رشتہ بتوں سے
ملے گا خدا ایسی قسمت نہیں ہے
ستم گر ہے وہ اور وہ بے وفا ہے
یہ کہہ دوں اسے مجھ میں جرأت نہیں ہے
وہی چھوڑ جانے کا ہیں نام لیتے
کہ جن کے لئے دہر جنت نہیں ہے
ہو دل میں ترے زعم پیدا کہ جس سے
ابھی میں نے مانی وہ منت نہیں ہے
نہیں اس کی عادت یقیں لائے مجھ پر
قسم کھانا میری بھی فطرت نہیں ہے
رفیقؔ اٹھ گئی ہے جہاں سے محبت
کسی کے بھی دل میں محبت نہیں ہے